
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان سرحدی جھڑپیں پیر کی صبح دوبارہ شروع ہو گئی ہیں۔ دونوں ملکوں کی جولائی میں بھی پانچ روزہ لڑائی ہوئی تھی جس کے بعد ملائیشیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان میں جنگ بندی کرائی تھی۔
حالیہ جھڑپوں کا الزام دونوں ملک ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ کمبوڈیا کا کہنا ہے کہ تھائی لینڈ نے اس کی فورسز پر حملہ کیا لیکن انہوں نے جنگ بندی کا احترام کرتے ہوئے کوئی جواب نہیں دیا۔
جب کہ تھائی لینڈ کی فوج کا دعویٰ ہے کہ پہلے کمبوڈیا نے ان کے فوجیوں پر حملہ کیا اور شہری علاقوں پر راکٹ فائر کیے۔
دونوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کیوں بڑھی؟
ابھی یہ واضح نہیں کہ حالیہ لڑائی کی اصل وجہ کیا بنی۔ تاہم 10 نومبر کو ایک بارودی سرنگ کی وجہ سے ایک تھائی فوجی زخمی ہوا تھا جس کے بعد تھائی لینڈ نے تناؤ میں کمی لانے کے وہ اقدامات معطل کر دیے تھے جو جنگ بندی معاہدے میں دونوں ملکوں کے درمیان طے پائے تھے۔
تھائی لینڈ کا کہنا تھا کہ یہ بارودی سرنگ کمبوڈیا نے حال ہی میں بچھائی تھیں۔ تھائی لینڈ نے کمبوڈیا معافی کا مطالبہ کیا تھا جب کہ کمبوڈیا نے الزامات کو مسترد کیا تھا۔
دونوں ملکوں میں سے کس کی فوجی قوت زیادہ ہے؟
تھائی لینڈ کی فوج کمبوڈیا سے تین گنا بڑی ہے اور اس کا دفاعی بجٹ بھی کمبوڈیا سے چار گنا زیادہ ہے۔
کمبوڈیا کے پاس 75 ہزار فوجی ہیں، 200 جنگی ٹینکس اور 480 توپیں ہیں۔ تھائی لینڈ کے فوجیوں کی تعداد دو لاکھ 45 ہزار ہے اور اس کے پاس 400 ٹینک، 1200 آرمرڈ فوجی گاڑیاں اور 2600 توپیں ہیں۔
تھائی لینڈ کی ایئرفورس کے پاس 40 لڑاکا طیارے اور درجنوں ہیلی کاپٹرز ہی جب کہ کمبوڈیا کے پاس صرف 16 ہیلی کاپٹرز ہیں اور کوئی لڑاکا جہاز نہیں ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان ایک صدی پرانا تنازع کیا ہے؟
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان سرحد 817 کلومیٹر لمبی ہے لیکن اس سرحد کے کئی حصوں پر یہ واضح نہیں کہ کس ملک کی حدود کہاں تک ہیں۔ کیوں کہ دونوں ملک کچھ علاقوں پر اپنا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اسی لیے دونوں ملک پچھلے 100 سال سے زیادہ عرصے سے ان علاقوں کو اپنا علاقہ سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے سے اختلاف کرتے آ رہے ہیں۔

یہ نقشہ ایک معاہدے کی بنیاد پر بنایا گیا تھا، جس کے مطابق سرحد وہاں بنائی جانی تھی جہاں پانی کی قدرتی گزرگاہ ہے۔ یعنی وہ قدرتی لکیر جو دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے بہاؤ سے بنتی ہے، اسے سرحد مانا جانا تھا۔ لیکن بعد میں تھائی لینڈ نے اس نقشے کو چیلنج کر دیا۔
سال 2000 میں دونوں ممالک نے ایک جوائنٹ بارڈر کمیشن بنانے پر اتفاق کیا تاکہ تنازع کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے مگر اب تک اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔
تاریخی مقامات کی ملکیت کا تنازع
اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان کچھ تاریخی مقامات کی ملکیت کا بھی تنازع ہے۔
ایک 11 ویں صدی کا ہندو مندر ہے جسے کمبوڈیا میں ’پریاہ وییئر‘ اور تھائی لینڈ میں ’کھاؤ پھرا ویہان‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مندر کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کا مرکزی نقطہ رہا ہے۔ دونوں ملک اس مندر پر ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
1962 میں عالمی عدالتِ انصاف نے فیصلہ دیا تھا کہ یہ مندر کمبوڈیا کا حصہ ہے لیکن تھائی لینڈ نے مندر کے اردگرد کی زمین پر دعویٰ برقرار رکھا۔
2008 میں کمبوڈیا نے اس مندر کو یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج (یونیسکوعالمی ورثہ) میں شامل کرانے کی کوشش کی، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پھر کشیدگی بڑھ گئی اور اگلے چند سالوں میں وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوتی رہیں۔
2013 میں کمبوڈیا نے عالمی عدالتِ انصاف سے 1962 کے فیصلے کی مزید وضاحت مانگی جس پر عدالت نے ایک بار پھر کمبوڈیا کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ مندر کے آس پاس کی زمین بھی کمبوڈیا کا حصہ ہے اور تھائی فوج کو وہاں سے واپس بلانے کا حکم دیا۔ تاہم یہ تاریخی تنازعہ اب بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ رکھنے کا سبب بن رہا ہے۔







