پاکستان میں منتظر افغان پناہ گزین اب جرمنی نہیں جا سکیں گے: جرمن حکام

12:2715/12/2025, پیر
جنرل15/12/2025, پیر
ویب ڈیسک
پچھلے چند ماہ میں پاکستان سے سینکڑوں افغان پناہ گزین جرمنی پہنچے ہیں مگر اب بھی سینکڑوں پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔
پچھلے چند ماہ میں پاکستان سے سینکڑوں افغان پناہ گزین جرمنی پہنچے ہیں مگر اب بھی سینکڑوں پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں سینکڑوں ایسے افغان پناہ گزین ہیں جو جرمنی جانے کے انتظار میں کئی مہینوں سے یہاں مقیم ہیں۔ لیکن اب ان کے جرمنی جانے کے امکانات تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔

جرمنی کے خبر رساں ادارے 'ڈی ڈبلیو' کے مطابق جرمن وزارتِ داخلہ کے ترجمان سونجا کوک نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں مقیم 640 افغان پناہ گزینوں کو آئندہ کچھ دنوں میں آگاہ کر دیا جائے گا کہ وہ اب جرمنی نہیں آ سکیں گے۔

ان افغان پناہ گزینوں سے جرمنی کی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں سیاسی پناہ فراہم کریں گے اور جرمنی منتقل کریں گے۔ جرمن حکومت نے افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان، وکلا، صحافیوں اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کو جرمنی میں پناہ دینے کا کہا تھا کیوں کہ انہیں طالبان حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائی یا جان لیوا خطرات لاحق تھے۔

لیکن یہ وعدہ جرمنی کی سابق حکومت نے کیا تھا جسے لبرل تصور کیا جاتا ہے۔ چانسلر فریڈرش مرز کی موجودہ حکومت جسے قدامت پسند تصور کیا جاتا ہے، آبادکاری پروگرام زیادہ سے زیادہ ختم کرنے کے عزم پر کاربند ہے۔ اسی وجہ سے جرمنی نے افغان پناہ گزینوں سے کیا گیا یہ وعدہ ختم کر دیا ہے۔

جرمن وزارتِ داخلہ کے ترجمان کے مطابق اب ان پناہ گزینوں کو جرمنی لانے میں کوئی سیاسی دلچسپی باقی نہیں رہی۔

جرمن وزارتوں میں کام کرنے والے افغانوں کی درخواستیں بھی مسترد

یہ پہلی بار ہے کہ افغانستان میں جرمنی کی وزارتوں کے لیے کام کرنے والے مقامی ملازمین بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک امدادی تنظیم کے مطابق گزشتہ ہفتے ان ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کو ای میل کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ وہ اب جرمنی نہیں آ سکیں گے۔

کابل لوفت برکے نامی تنظیم کی ترجمان ایوا بیئر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تقریباً 130 ایسے افراد کو جنہیں جرمنی لے جانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، اب انہیں بتا دیا گیا ہے کہ وہ نہیں جا سکیں گے۔

وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے بھی تصدیق کی ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ اب 220 مقامی ملازمین میں سے صرف 90 جرمنی جانے کے لیے درخواست کر سکتے ہیں۔

تاہم دوسری جانب جرمنی کے وزیرِ داخلہ نے کہا ہے کہ جہاں ہم قانونی طور پر پابند ہیں ہم اپنے ان وعدوں کو پورا کریں گے۔ اور جرمنی کے لیے کام کرنے والے افغان مقامی ملازمین کو ہم اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جرمنی نے 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اپریل 2025 تک چار ہزار مقامی ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کے تقریباً 15 ہزار افراد کو جرمنی میں پناہ دی ہے۔ جب کہ پاکستان میں جو افراد جرمنی جانے کے منتظر ہیں وہ اس تعداد کے مقابلے میں کافی کم ہیں۔

پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزین غیر یقینی کا شکار

پاکستان افغان پناہ گزینوں پر اپنے وطن واپس جانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ پاکستانی حکام جرمنی جانے کے منتظر پناہ گزینوں پر بھی واپسی یا ملک بدری کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ پناہ گزین کئی مہینوں سے غیر یقینی کی کیفیت میں جی رہے ہیں۔

جرمنی کی موجودہ حکومت میں کئی سو افراد پاکستان سے جرمنی منتقل بھی ہوئے ہیں۔ لیکن تقریباً ایک ہزار افغان اب بھی جرمنی جانے کے منتظر ہیں۔

ان پناہ گزینوں کو چوتھے آبادکاری پروگرام کے تحت جرمنی میں آباد ہونے کی اجازت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ تاہم حالیہ مہینوں میں وزیرِ داخلہ ڈونبرٹ نے ان وعدوں پر عمل نہیں کیا۔ اب صرف وہی افراد ملک سے منتقل کیے جائیں گے جنہوں نے داخلے کے وعدوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے جرمن انتظامی عدالتوں میں کامیابی سے مقدمہ جیتا ہو۔

کابل لوفت بروکے نامی امدادی تنظیم افغان شہریوں کو وکلا سے جوڑتی ہے۔ تنظیم کے مطابق اب تک 84 مقدمات میں کامیابی حاصل ہو چکی ہے جب کہ 195 مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ درجنوں مزید مقدمات کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ عدالتی کارروائیاں سال کے اختتام تک مکمل ہو سکیں گی یا نہیں۔

کابل لوفت بروکے سے وابستہ بیئر نے پاکستان میں پھنسے افراد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا یہ ایک ناقابلِ یقین بے یقینی کی کیفیت ہے جس میں کچھ لوگ مہینوں سے، بلکہ بعض تو برسوں سے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بے یقینی بذاتِ خود ایک نفسیاتی اذیت ہے۔

چار برسوں کے دوران، اس آبادکاری پروگرام کے تحت تقریباً 3,500 وعدے کیے گئے تھے، جو بنیادی طور پر جرمن غیر سرکاری تنظیموں کے ان سابق ملازمین کے لیے تھے، جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خطرے سے دوچار ہو گئے تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا جرمنی سے مطالبہ

تقریباً 250 تنظیموں جن میں ہیومن رائٹس واچ، پرو آسیل اور بروٹ فیئر ڈی ویلٹ شامل ہیں، نے جرمن وزیرِ داخلہ کو ایک کھلا خط ارسال کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سال کے اختتام سے پہلے بغیر کسی بیوروکریٹک رکاوٹ کے خطرے سے دوچار افغان خاندانوں کو جرمنی لایا جائے۔

پرو آسیل کی شریک ڈائریکٹر ہیلن ریزینے نے داخلے کے وعدے پانے والے تمام افراد کو بچانے کو 'جرمن حکومت کی قابلِ اعتمادیت، ساکھ اور انسانیت کا کسوٹی امتحان' قرار دیا۔

تاہم جرمنی کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان سونجا کوک نے کہا ہے کہ کم از کم متاثرہ افراد فوری طور پر بے گھر نہیں ہوں گے۔ ان کے مطابق جب تک افغانستان اور پاکستان کے درمیان زمینی سرحد بند رہے گی، وہ پاکستان میں کرائے کے گیسٹ ہاؤسز میں قیام کر سکتے ہیں۔

جرمن حکومت یہ پیشکش بھی کر رہی ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی افغانستان واپسی کے لیے پروازوں کا بندوبست کر سکتی ہے۔ حالاں کہ وہاں ان کا مستقبل مکمل طور پر غیر یقینی ہوگا۔

##جرمنی
##افغان پناہ گزین
##پاکستان