
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو کہا ہے کہ وہ اور یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے 'معاہدے کے قریب پہنچ رہے ہیں، بلکہ شاید بہت قریب ہیں۔' لیکن ان کا کہنا تھا کہ کچھ اہم مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور ولودومیر زیلنسکی نے اتوار کو فلوریڈا میں ٹرمپ کی اسٹیٹ مارا لاگو میں ملاقات کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کی جس میں امریکی صدر نے اقرار کیا کہ ڈونباس کے علاقے کا مستقبل اب بھی ایک بہت اہم حل طلب معاملہ ہے۔

ملاقات شان دار رہی: ٹرمپ
ٹرمپ نے زیلنسکی سے ہونے والی ملاقات کو 'شان دار' قرار دیا۔ یوکرینی صدرنے بھی ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ملاقات کو 'اہم پیش رفت' قرار دیا۔
زیلنسکی نے کہا کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں امن منصوبے کے تمام پہلوؤں پر بات چیت ہوئی۔ ان کے مطابق 20 نکاتی امن منصوبہ 90 فی صد طے پا گیا ہے جب کہ امریکہ کی جانب سے یوکرین کو دی جانے والی سیکیورٹی ضمانتیں 100 فی صد طے ہو چکی ہیں۔

روس، امریکہ اور یوکرین کے رہنماؤں کی سہ فریقی ملاقات کا امکان
صدر ٹرمپ نے کہا کہ روس، امریکہ اور یوکرین کے درمیان سہ فریقی ملاقات 'صحیح وقت پر' ممکن ہے۔ ان کے بقول روسی صدر ولادیمیر پوتن بھی اس ملاقات کے خواہاں ہیں اور اس کا وہ اظہار بھی کر چکے ہیں۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ ان کی روسی صدر سے فون پر ڈھائی تک تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔ پوتن نے سہ فریقی ملاقات کے انعقاد کی خواہش ظاہر کی ہے اور وہ اس پر یقین رکھتے ہیں۔

'اب وقت آ گیا ہے کہ تنازع ختم کیا جائے'
جب امریکی صدر سے پوچھا گیا کہ آیا ڈونباس میں فری ٹریڈ زون پر کوئی معاہدہ ہوا ہے تو ٹرمپ نے کہا کہ یہ ابھی 'غیر حل شدہ معاملہ ہے لیکن ہم اس کے حل کے بھی بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔'
ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ سب سے مشکل اور ابھی تک حل طلب مسائل کون سے ہیں؟ تو جواب میں انہوں نے کہا کہ 'میرا خیال ہے یہ معاملہ ابھی حل طلب ہے کہ کون کس کی زمین پر کس حد تک قابض ہے اور کسے کہاں ہونا چاہیے، لیکن آنے والے چند مہینوں میں اس پر بھی بات ہوگی۔'
ٹرمپ نے کہا کہ 'ابھی معاہدہ کر لینا بہتر ہے۔ یوکرین نے بہت بہادری دکھائی ہے۔ لیکن اب وقت آچکا ہے کہ اس تنازع کو ختم کیا جائے۔'
ان کا کہنا تھا کہ وہ یوکرین کا دورہ کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ترجیح یہ ہے کہ پہلے معاہدہ طے پا جائے۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے یوکرینی پارلیمنٹ میں خطاب کی پیشکش کی ہے۔ اگر زیلنسکی سمجھتے ہیں کہ اس سے مدد ملے گی۔ جس پر یوکرین کے صدر کا جواب تھا کہ 'ہم آپ کو ہمیشہ خوش آمدید کہتے ہیں۔'






