ٹرمپ کے غزہ منصوبے پر پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر توجہ کا مرکز

10:4517/12/2025, Çarşamba
جنرل17/12/2025, Çarşamba
ویب ڈیسک
جنرل عاصم منیر
جنرل عاصم منیر

غزہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے میں پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے کردار کو خاصا اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکہ کا اصرار ہے کہ پاکستان غزہ میں تعینات ہونے والی بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس کا حصہ بنے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام پاکستان میں عوامی ردعمل کو جنم دے سکتا ہے۔

رائٹرز کو دو ذرائع نے بتایا ہے کہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا اسی سلسلے میں دورۂ واشنگٹن متوقع ہے اور وہ آئندہ چند ہفتوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ یہ ان کی چھ مہینوں میں ٹرمپ سے تیسری ملاقات ہوگی جس میں ممکنہ طور پر غزہ میں تعینات ہونے والی فورس پر بات کی جائے گی۔

بین الاقوامی فورس کے معاملے پر محتاط رویہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تجویز کردہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے میں یہ شرط شامل ہے کہ فلسطینی علاقے میں تعمیرِ نو، معاشی بحالی اور حکومت کے قیام کے دوران ایک بین الاقوامی فورس کو تعینات رکھا جائے گا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس فورس میں عرب اور مسلم ملک حصہ ڈالیں۔

لیکن غزہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے میں حماس کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے اور منصوبے کے مطابق اس کا غزہ کے مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اس نکتے کی وجہ سے بہت سے ملک محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔

کیوں کہ اگر اس فورس کو ایسا کرنے کی ذمے داری دی جاتی ہے تو یہ انہیں تنازع کا حصہ بنانے کے مترادف ہوگا اور اس سے ان ملکوں میں عوام بھی مشتعل ہو سکتے ہیں جو فلسطین کے حق میں اور اسرائیل مخالف مؤقف رکھتے ہیں۔

ٹرمپ اور جنرل عاصم منیر کے تعلقات

دوسری جانب حال ہی میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اچھے تعلقات ہیں۔ ٹرمپ جنرل عاصم منیر کو 'پسندیدہ فیلڈ مارشل' کہہ چکے ہیں اور رواں سال جون میں پہلی بار امریکی صدر کی جانب سے کسی پاکستانی آرمی چیف کو وائٹ ہاؤس میں ظہرانہ دیا گیا۔

اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے لیے امتحان ہو سکتا ہے۔

امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے وابستہ اور جنوبی ایشیا کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ 'غزہ اسٹیبلائزیشن فورس کا حصہ بننے سے انکار ٹرمپ کو ناراض کر سکتا ہے جو پاکستان کے لیے معمولی معاملہ نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے امریکی سرمایہ کاری اور سیکیورٹی امداد کو دھچکا پہنچے گا۔'

رائٹرز کے مطابق پاکستان کی فوج، دفترِ خارجہ، وزارتِ اطلاعات نے ان کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ جب کہ وائٹ ہاؤس نے بھی معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے پچھلے مہینے کہا تھا کہ اسلام آباد غزہ میں امن فورس کا حصہ بننے پر غور کر رہا ہے لیکن اس کا مقصد امن برقرار رکھنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔

پچھلے چند ہفتوں کے دوران فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کئی ملکوں کے سول و عسکری حکام سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں انڈونیشیا، ملائیشیا، سعودی عرب، ترکیہ، اردن، مصر اور قطر کے حکام شامل ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار اور مصنف عائشہ صدیقہ ان ملاقاتوں کو غزہ میں فوج تعینات کرنے کے لیے مشاورت کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔

ایک بڑی تشویش یہ ہے کہ غزہ میں امن فورس کا حصہ بننے سے پاکستان میں مذہبی و سیاسی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل آ سکتا ہے اور یہ صورتِ حال مظاہروں کو بھی جنم دے سکتی ہے۔

سنگاپور میں بین الاقوامی علوم کے ایک ادارے سے وابستہ تجزیہ کار عبد الباسط کے مطابق اگر غزہ میں فوج تعینات کرنے کے بعد ملک میں صورتِ حال خراب ہوئی تو مسائل تیزی سے بڑھیں گے۔

(یہ تحریر خبر رساں ادارے رائٹرز سے ماخوذ ہے)
##پاکستان
##غزہ
##غزہ امن فورس
##امریکہ