
یمن نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدہ منسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ امارات اپنے تمام فوجیوں کو 24 گھنٹوں کے اندر واپس بلائے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان یمن کے معاملے پر اختلافات اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔
یمن کی جانب سے متحدہ عرب امارات کے ساتھ دفاعی معاہدہ ختم کرنے کا اعلان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب سعودی عرب نے منگل کو یمن کی بندرگاہ مکلا پر دو بحری جہازوں کو نشانہ بنایا ہے جس کے بارے میں سعودی سربراہی میں قائم فوجی اتحاد نے کہا ہے کہ یہ جہاز متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ فجیرہ سے یمن میں بلا اجازت داخل ہوئے تھے اور اسلحے کی کھیپ اتار رہے تھے۔
منگل کو سعودی اتحاد کی کارروائی کے بعد متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی یمن کے معاملے پر خاموش رقابت عیاں ہو گئی ہے اور ملکوں کے تعلقات میں گہری خلیج نظر آ رہی ہے۔
یمن نے متحدہ عرب امارات سے معاہدہ کیوں ختم کیا؟
یمن 2014 سے خانہ جنگی کا شکار ہے اور یہاں تین بڑی قوتیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ حوثی باغی جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے، صدارتی لیڈرشپ کونسل جسے سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے اور سدرن ٹرانزیشنل کونسل جسے متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
صدارتی لیڈر شپ کونسل کو عالمی سطح پر یمن کی جائز حکومت تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم حال ہی میں سدرن ٹرانزیشنل کونسل نے یمن کے جنوبی علاقوں میں پیش قدمی کرتے ہوئے اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے۔

یمنی صدارتی لیڈرشپ کونسل نے کہا ہے کہ 'تمام اماراتی افواج 24 گھنٹوں میں یمن کی سرزمین سے لازمی انخلا کریں۔
یمن نے ملک میں 90 دن کی ایمرجنسی بھی نافذ کر دی ہے اور تمام زمینی بارڈر کراسنگز پر 72 گھنٹوں کی پابندی لگا دی ہے۔ اس کے علاوہ فضائی و بحری راستوں سے یمن میں داخلہ بھی 72 گھنٹوں کے لیے روک دیا گیا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ متحدہ عرب امارات یمن کی درخواست کو قبول کرے گا اور 24 گھنٹوں میں یمن سے اماراتی فوجیوں کو واپس بلا لے گا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں یمن کے معاملے پر کیا اختلاف ہے؟
سعودی عرب اس تنازع میں صدارتی لیڈر شپ کونسل کے ساتھ ہے جب کہ امارات سدرن ٹرانزیشنل کونسل کی حمایت کرتا ہے۔ دونوں گروپس یمن میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔
پہلے دونوں گروپس ساتھ مل کر حوثی باغیوں کے خلاف میدان میں تھے۔ لیکن بعد ازاں سدرن ٹرانزیشنل کونسل نے اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں میں خود مختاری کے لیے کوششیں شروع کر دیں اور صدارتی لیڈر شپ کونسل کے مدمقابل کھڑی ہو گئی۔
سدرن ٹرانزیشنل کونسل نے حال ہی میں یمن کے دو صوبوں میں پیش قدمی کی ہے اور حکومتی فورسز سے لڑائی کے بعد جنوب میں ایک بڑے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور وہ ان علاقوں کو ایک آزاد ریاست بنانا چاہتی ہے۔ ان علاقوں میں اسٹریٹیجک طور پر اہم حضرموت صوبہ بھی شامل ہے جو سعودی عرب کی سرحد پر واقع ہے۔

سعودی عرب کا متحدہ عرب امارات سے متعلق سخت بیان
سعودی عرب نے منگل کو متحدہ عرب امارات کو یمن میں خانہ جنگی کے ایک فریق کی حمایت سے باز رہنے کی تاکید کی ہے۔ سعودی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں یمن میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے سدرن ٹرانزیشنل کونسل کو فوجی مدد فراہم کرنا یمن اور سعودی عرب کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات کے اقدامات اتحاد کے اصولوں کے خلاف ہیں اور اِن سے یمن میں قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کو متحدہ عرب امارات کے اِن اقدامات پر مایوسی ہوئی، جن میں سدرن ٹرانزیشنل کونسل کی افواج پر دباؤ ڈال کر یمن کی جنوبی سرحدوں پر حضرموت اور المہرا کے صوبوں میں فوجی کارروائیاں کروائی گئیں۔ یہ اقدامات سعودی عرب کی قومی سلامتی اور یمن و خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ تصور کیے جاتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے اٹھائے گئے اقدامات انتہائی خطرناک ہیں۔ کسی بھی خطرے کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر ایسے خطرات کو ختم کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔
جب کہ دوسری جانب متحدہ عرب امارات نے اب تک اس تمام صورتِ حال پر کوئی تبصرہ یا بیان جاری نہیں کیا ہے۔






