
انڈیا کے شہر بریلی میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک کیفے میں ہنگامہ آرائی کی اور سالگرہ منانے والے دوستوں پر 'لو جہاد' کا الزام لگا کر انہیں ہراساں کیا گیا۔ تاہم پولیس نے انتہا پسندوں کا نشانہ بننے والے دو مسلم لڑکوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے شہر بریلی میں یہ واقعہ ہفتے کو اس وقت پیش آیا جب یونیورسٹی کے کچھ طلبہ و طالبات ایک کیفے میں اپنے دوست کی سالگرہ منا رہے تھے۔ تقریب میں پانچ لڑکیاں اور چار لڑکے شریک تھے جن میں سے دو مسلمان تھے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دوران ہندو انتہا پسند تنظیم 'بجرنگ دل' کے کچھ کارکن کیفے میں گھس آئے اور تقریب میں شریک مسلم طلبہ پر 'لو جہاد' کا الزام لگا کر انہیں ہراساں کرنے لگے۔ جب کچھ طلبہ نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو انہیں زد و کوب بھی کیا گیا۔
واضح رہے کہ انڈیا میں 'لَو جہاد' کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کے تحت مسلمانوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر انہیں شادی کا جھانسہ دے کر مسلمان بناتے ہیں۔'
بعد ازاں پولیس نے تحقیقات کے بعد 'لَو جہاد' کے الزامات کو غلط قرار دیا۔ مگر اپنی ہندو دوست کی سالگرہ کی تقریب میں شریک دو مسلمان طلبہ کے خلاف 'امن و امان کی خرابی' کا مقدمہ درج کر لیا۔ مقدمے میں کیفے کے ایک ملازم کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
متاثرہ طالبہ نے 'ٹائمز آف انڈیا' سے گفتگو کے دوران واقعے کی تفیصلات بتاتے ہوئے کہا کہ 'وہ (ہندو انتہا پسند) میری سالگرہ کی تقریب میں گھس آئے اور میرے دوستوں پر حملہ کر دیا۔ وہاں صرف دو ہی مسلم دوست موجود تھے باقی سب ہندو تھے۔ لَو جہاد کا الزام غلط ثابت ہوا ہے۔'
ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف بھی مقدمہ
بعد ازاں جب واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور لوگوں نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور تنقید کی گئی تو پولیس نے اتوار کو ہنگامہ آرائی کرنے والے انتہا پسند کارکنان کے خلاف بھی کسی دوسرے کی املاک میں نقصان پہنچانے کی غرض سے داخل ہونے، سنگین مجرمانہ دھمکیوں اور قتل کی دھمکیاں دینے سمیت متعدد الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
ایک مقامی پولیس افسر آشوتوش شیوم کا کہنا تھا کہ 'ہم ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کی شناخت کر رہے ہیں۔'
دوسری جانب انڈیا کی اپوزیشن جماعت کانگریس نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایسے واقعات کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ اترپردیش کے کانگریسی رہنما انیل یادو نے اپنے بیان میں کہا کہ ایسے واقعات مہذب معاشرے پر دھبہ ہیں اور قانون کی حکمرانی پر سوال اٹھاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کے بجائے الٹا متاثرین پر ہی مقدمہ درج کر دیا۔ اور ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف مقدمہ تب درج ہوا جب اس معاملے پر لوگوں نے آواز اٹھائی۔
کانگریس رہنما کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات پولیس کے امتیازی رویوں کی نشان دہی کرتے ہیں کہ کیسے وہ دائیں بازو کی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ انیل یادو کے بقول ایسے واقعات روز مرہ کی بنیادوں پر ہو رہے ہیں۔






