طلبہ تحریک کے رہنما کی ہلاکت پر بنگلہ دیش میں ایک بار پھر مظاہرے اور جلاؤ گھیراؤ

08:5119/12/2025, جمعہ
جنرل19/12/2025, جمعہ
ویب ڈیسک
ہادی کو آئندہ فروری میں ہونے والے ملکی عام انتخابات میں ڈھاکہ-8 کے حلقے سے ممکنہ امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا
تصویر : آرکائیو / فائل
ہادی کو آئندہ فروری میں ہونے والے ملکی عام انتخابات میں ڈھاکہ-8 کے حلقے سے ممکنہ امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا

2024 میں بنگلہ دیشی طلبہ کی قیادت میں ہونے والی تحریک کے رہنما شریف عثمان بن ہادی قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد گزشتہ روز انتقال کر گئے ہیں۔ وہ سنگاپور کے ہسپتال میں زیر علاج تھے۔

سنگاپور کی وزارتِ خارجہ نے جمعرات کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ’ڈاکٹروں کی بھرپور کوششوں کے باوجود ہادی اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جانبر نہ ہو سکے۔‘

بنگلہ دیش کے روزنامہ ڈھاکہ ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق ہادی، جنہیں آئندہ فروری میں ہونے والے ملکی عام انتخابات میں ڈھاکہ-8 کے حلقے سے ممکنہ امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، 12 دسمبر کو دارالحکومت ڈھاکہ میں بیٹری سے چلنے والی آٹو رکشہ میں سفر کے دوران سر میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے۔

حملہ آور نے موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ان پر فائرنگ کی، جس کے بعد ہادی کو فوری طور پر علاج کے لیے ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کیا گیا۔

مقامی ڈاکٹروں نے ڈھاکہ ٹریبیون کو بتایا کہ ان کے برین اسٹیم کو شدید نقصان پہنچا تھا، جس کے باعث انہیں مزید علاج کے لیے 15 دسمبر کو بنگلہ دیش سے سنگاپور جنرل اسپتال (ایس جی ایچ) کے نیورو سرجیکل آئی سی یو منتقل کیا گیا تھا۔


شریف عثمان ہادی کون تھے؟

32 سالہ شریف عثمان بن ہادی طلبہ کے احتجاجی گروپ انقلاب منچہ کے سینئر رہنما تھے اور وہ انڈیا کے کھلے ناقد تھے۔ انڈیا سابق بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کا پرانا اتحادی ہے، جہاں وہ ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے مقیم ہیں۔

جمعرات کی رات فیس بک پر ان کی وفات کا اعلان کرتے ہوئے انقلاب منچہ نے کہا ’انڈین بالادستی کے خلاف جدوجہد میں اللہ نے عظیم انقلابی رہنما عثمان ہادی کو شہید کے طور پر قبول فرما لیا ہے۔‘

پولیس نے ہادی پر فائرنگ کرنے والے حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی ہے، دو اہم مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کر دی گئی ہیں اور ان کی گرفتاری میں مدد دینے والی معلومات پر 50 لاکھ ٹکا (تقریباً 42 ہزار ڈالر) انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔

بنگلہ دیشی اخبار دی ڈیلی اسٹار کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی پولیس اور بارڈر گارڈز اب تک اس واقعے سے منسلک کم از کم 20 افراد کو گرفتار کر چکے ہیں، تاہم قتل کی تحقیقات تاحال جاری ہیں۔

مذمت

ہادی کی وفات پر ملک بھر کے رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے تعزیت کے پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔

ملک کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے بھی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موت ’قوم کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان‘ ہے۔

انہوں نے جمعرات کو ٹیلی وژن خطاب میں کہا کہ ’خوف، دہشت یا خونریزی کے ذریعے ملک کے جمہوریت کی جانب سفر کو روکا نہیں جا سکتا۔‘

حکومت نے جمعے کی نماز کے بعد مساجد میں خصوصی دعاؤں اور ہفتے کے روز نصف دن کے سرکاری سوگ کا بھی اعلان کیا ہے۔


بنگلہ دیش بھر میں احتجاجی مظاہرے

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ہادی کی وفات کی خبر سامنے آتے ہی ڈھاکہ اور ملک کے دیگر حصوں میں سینکڑوں مشتعل مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔

مظاہرین کا ایک گروہ ڈھاکہ کے کروان بازار علاقے میں واقع ملک کے معروف بنگالی زبان کے روزنامہ پرتھوم آلو کے ہیڈ آفس کے باہر جمع ہوا، جس کے بعد انہوں نے عمارت میں داخل ہو کر ہنگامہ آرائی کی۔

کچھ ہی فاصلے پر مظاہرین کے ایک اور گروہ نے ڈیلی اسٹار کے دفتر میں زبردستی داخل ہو کر عمارت کو آگ لگا دی۔ یہ مناظر ملک کے اخبار کالر کانٹھا کی جانب سے جاری کردہ فوٹیج میں دیکھے گئے۔

دونوں عمارتوں کے باہر فوجی اور نیم فوجی بارڈر گارڈز تعینات تھے، تاہم انہوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ اور 85 سالہ نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس، جو 12 فروری کو ہونے والے انتخابات تک ملک کی قیادت کر رہے ہیں، نے ہفتے کے روز کہا کہ ہادی پر فائرنگ ایک سوچا سمجھا حملہ تھا، جسے ایک طاقتور نیٹ ورک نے انجام دیا، تاہم انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا۔


#بنگلہ دیش
#شیخ حسینہ
#احتجاج