
سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ سعودی سربراہی میں قائم اتحاد نے یمن میں ایک فضائی حملے میں ایسے ہتھیاروں اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا ہے جو کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والے جہازوں سے اتاری جا رہی تھیں۔
سعودی عرب کی سربراہی میں قائم فوجی اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ اس نے یمن میں ایک 'محدود' فضائی حملے میں دو جہازوں کو نشانہ بنایا ہے جو متحدہ عرب امارات سے ہتھیار اور عسکری سازوسامان یمن اسمگل کر رہے تھے۔
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ادارے 'سعودی پریس ایجنسی' کے مطابق عسکری اتحاد کے ترجمان میجر جنرل ترکی المالکی نے کہا ہے کہ دو جہاز متحدہ عرب امارات کی فجیرہ بندرگاہ سے آئے تھے اور یمن کی مکلا بندرگاہ پر موجود تھے۔ ترجمان کے مطابق ان جہازوں نے فوجی اتحاد سے بندرگاہ میں داخلے کی اجازت بھی نہیں لی تھی۔
ترجمان کے مطابق دونوں جہازوں کے عملے نے ٹریکنگ سسٹم بند کیا ہوا تھا اور جہازوں سے بڑے پیمانے پر ہتھیار اور لڑائی میں استعمال ہونے والی گاڑیاں اتاری جا رہی تھیں۔ یہ اسلحہ یمن کے مشرقی صوبوں حضرموت اور المحرہ میں سرگرم سدرن ٹرانزیشنل کونسل فورسز (ایس ٹی سی) کی مدد کے لیے پہنچایا گیا تھا تاکہ تنازع کو ہوا دی جا سکے۔ ترجمان کے بقول یہ اقدام اقوامِ متحدہ کی قرارداد اور پرامن راستہ تلاش کرنے کی کوششوں کی خلاف ورزی ہے۔
سعودی سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی اتحاد کا کہنا ہے کہ مکلا بندرگاہ پر حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔

سدرن ٹرانزیشنل کونسل کیا ہے اور متحدہ عرب امارات کا یمن میں کیا کردار ہے؟
یمن 2014 سے خانہ جنگی کا شکار ہے اور یہاں کچھ بڑی قوتیں ایک دوسرے کے خلاف ظاہری و پوشیدہ جنگیں لڑ رہی ہیں۔ یمن کی خانہ جنگی میں تین بڑے گروہوں اور ان کے حامیوں کا کردار واضح ہے۔
حوثی باغی
اس خانہ جنگی میں ایک بڑا گروہ حوثی باغی ہیں جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔ حوثی باغی صدارتی لیڈرشپ کونسل کے خلاف برسرِ پیکار ہیں جو اس تنازع کا دوسرا بڑا فریق ہے۔
صدارتی لیڈر شپ کونسل
صدارتی لیڈرشپ کونسل کو عالمی سطح پر یمن کی جائز حکومت تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے سعودی اتحاد کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔
سدرن ٹرانزیشنل کونسل
یمن کی خانہ جنگی کا تیسرا بڑا فریق سدرن ٹرانزیشنل کونسل نامی جماعت ہے۔ یہ جماعت ماضی میں صدارتی لیڈرشپ کونسل کی اتحادی بھی رہی۔ یعنی یہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف قائم کردہ سعودی اتحاد کا حصہ تھی۔ لیکن بعد میں اس نے یمن کے جنوبی علاقوں میں خود مختاری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اب یہ ایک علیحدہ خودمختار ریاست کی تحریک چلا رہی ہے۔ سدرن ٹرانزیشنل کونسل کو متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل رہی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ چھوٹی موٹی تنظیمیں، قبائلی جنگجو بھی مقامی طور پر سرگرم ہیں اور لڑائی کا حصہ ہیں۔
سعودی اتحاد اور متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ گروہ آمنے سامنے
رواں ماہ کے آغاز میں یمن کے جنوب میں موجود علیحدگی پسندوں کی کارروائی کے باعث متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) اور سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومتی فوجی دستے آمنے سامنے آئے تھے۔
یمن کے مقامی ذرائع ابلاغ پر دسمبر کے اوائل سے یہ تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ جنوبی یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
ایس ٹی سی یمن کے جنوب کے بڑے حصے پر قابض ہے جن میں اسٹریٹیجک طور پر اہم حضرموت صوبہ بھی شامل ہے۔ حضرموت سعودی عرب کی سرحد پر واقع ہے اور اس کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں۔
حوثی ملک کے شمالی حصے پر قابض ہیں بشمول دارالحکومت صنعا جہاں سے انہوں نے سعودی حمایت یافتہ حکومت کو 2014 میں نکال دیا تھا اور شمال کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔
سعودی اتحاد نے مزید کہا کہ 'ہم کسی بھی ملک کی جانب سے کسی یمنی گروہ کو فوجی مدد فراہم کرنے سے روکنا جاری رکھیں گے۔'
اس کشیدگی کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ 'ہم تحمل اور مسلسل سفارت کاری کی اپیل کرتے ہیں تاکہ ایک پائیدار حل تک پہنچا جا سکے۔'
جبکہ سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نے ایکس پر پوسٹ کیے گئے پیغام میں کہا ہے کہ ایس ٹی سی کے فوجیوں کو چاہیے کہ وہ دو علاقائی صوبوں کو حکومت کے حوالے 'پرامن طریقے' سے کر دیں۔ لیکن ایس ٹی سی نے جمعے کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اپنے خلاف ان کارروائیوں کے باوجود پیچھے نہیں ہٹیں گے۔






