انڈیا اور پاکستان کے درمیان اہم معاہدے کون سے ہیں؟

08:1025/04/2025, Cuma
جنرل25/04/2025, Cuma
AFP
1947 کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی اہم معاہدے ہوچکے ہیں۔
تصویر : فیس بک / فائل
1947 کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی اہم معاہدے ہوچکے ہیں۔

پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ انڈیا کے ساتھ شملہ معاہدے سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا حق استعمال کر سکتا ہے۔

22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گرد حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا ہے۔

پہلگام حملے میں 26 لوگ ہلاک ہوئے تھے جن میں تمام مرد تھے جبکہ ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والے سیاح تقریباً تمام عام شہری تھے، ان میں بھارتی بحریہ کا ایک افسر بھی شامل تھا جو شمالی ریاست ہریانہ سے تعلق رکھتا تھا اور ہنی مون پر تھا۔

ہلاک ہونے والوں میں نیپال سے تعلق رکھنے والا ایک شخص بھی شامل ہے۔

اس حملے کو ابھی 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ انڈیا نے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے انڈس واٹر ٹریٹی سے الگ ہونے کے اعلان سمیت اپنے تمام بارڈز بند کردیے اور اپنے ملک سے تمام پاکستانی سفیروں اور شہریوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

اس کے جواب میں پاکستان نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی بلائی اور فضائی حدود بند کرنے اور تجارت روکنے سمیت کئی فیصلے کیے۔

ان فیصلوں میں یہ بھی کہا کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ شملہ معاہدے سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا حق استعمال کر سکتا ہے۔

پاکستان کی آزادی کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کون کون سے معاہدے دستخط ہوئے۔ آئیے ان کی تفصیل جانتے ہیں:


نہرو- لیاقت معاہدہ

یہ معاہدہ اپریل 1950 میں اُس وقت کے انڈین وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کے درمیان نئی دہلی میں ایک ملاقات کے دوران طے پایا۔

یہ معاہدہ اس وقت ہوا جب تقسیمِ ہند کے بعد دونوں ملکوں میں ہندو، مسلم اور سکھ اقلیتوں پر تشدد کے واقعات بڑھ گئے تھے۔

اس معاہدے کے تحت:

اقلیتوں کے جان و مال اور حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔

دونوں ممالک اس معاملے میں ایک دوسرے کو جوابدہ ہوں گے۔

اقلیتوں کو نوکریاں حاصل کرنے کا برابر حق دیا جائے گا

اقلیتوں کو کہیں آنے جانے سے نہیں روکا جائے گا۔

اور ایک کمیشن بھی بنایا جائے گا جو یہ دیکھے گا کہ ان فیصلوں پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں۔


سندھ طاس معاہدہ

یہ معاہدہ 9 سال کی بات چیت کے بعد 19 ستمبر 1960 کو طے پایا، جس کی ثالثی ورلڈ بینک نے کی۔

اُس وقت کے انڈین وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان نے معاہدے پر دستخط کیے۔

یہ معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کے استعمال سے متعلق تھا۔

معاہدے کے مطابق:

مغربی دریا — سندھ، جہلم اور چناب — کا پانی پاکستان کو دیا گیا۔

مشرقی دریا — راوی، بیاس اور ستلج — کا پانی انڈیا کو دیا گیا۔

معاہدے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دونوں ممالک پانی پر ڈیم، نہریں، بیراج اور ٹیوب ویل کیسے بنائیں گے اور ان منصوبوں کے لیے مالی مدد کیسے ملے گی۔


شملہ معاہدہ

شملہ معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1971 کی جنگ کے بعد طے پایا۔ اس پر ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی نے دستخط کیے۔

اس معاہدے کے اہم پوائنٹس:

دونوں ممالک کوئی بھی قدم یکطرفہ طور پر نہیں اٹھائیں گے۔

تمام تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے گا۔

سیز فائر لائن کو اب لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کہا جائے گا۔

کشمیر کے حوالے سے معاہدے میں کہا گیا کہ ’ان بنیادی مسائل اور تنازعات کو جو گزشتہ 25 سال سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ بنے ہوئے ہیں، پرامن طریقے سے حل کیا جائے گا۔‘

معاہدے میں یہ بھی طے ہوا کہ دونوں ممالک امن اور تعلقات کی بحالی کے لیے طریقہ کار پر بات کریں گے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا نے 2019 میں شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی، جب اس نے یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کر دی۔

اس تبدیلی کے بعد باہر کے لوگ کشمیر میں رہائش اختیار کرنے اور جائیداد خریدنے کے اہل ہو گئے، جس سے وادی کی مسلم اکثریتی آبادی کا تناسب تبدیل ہونے کا خدشہ پیدا ہوا اور پاکستان نے اسے شملہ معاہدے کی ایک اور خلاف ورزی قرار دیا۔


مذہبی مقامات پر زیارت کے لیے پروٹوکول (معاہدہ)

ہہ پروٹوکول (معاہدہ) 1974 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان طے پایا، جس کا مقصد دونوں ممالک کے مذہبی زائرین کو ایک دوسرے کے مقدس مقامات کی زیارت کی سہولت دینا ہے۔

2018 تک اس معاہدے کے تحت:

پاکستان میں 15 مقامات شامل ہیں، جن میں:

سندھ میں شادانی دربار

چکوال میں کٹاس راج دھام

گوردوارہ ننکانہ صاحب

گوردوارہ پنجہ صاحب

انڈیا میں 5 مقامات شامل ہیں، جن میں:

درگاہ خواجہ معین الدین چشتی (اجمیر شریف)

حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ

امیر خسرو کا مزار

پروٹوکول کے مطابق پاکستان ہر سال 3 ہزار سکھ یاتریوں کو مذہبی تہواروں پر آنے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم اس سال پاکستان نے 6 ہزار 751 ویزے جاری کیے، جو کہ ایک ریکارڈ تعداد ہے۔ اس کے برعکس انڈیا نے اجمیر شریف کے سالانہ عرس میں شرکت کے لیے صرف 100 پاکستانی زائرین کو ویزے دیے، حالانکہ مختص کوٹہ 500 تھا۔


نیوکلئیر تنصیبات اور سہولتوں پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ

یہ معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان 31 دسمبر 1988 کو طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کو ایک دوسرے کو اپنے جوہری تنصیبات اور سہولتوں کی فہرست ہر سال 1 جنوری کو فراہم کرنا ضروری تھا۔

معاہدے میں یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات یا سہولتوں کو تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے کی کسی بھی کارروائی میں شریک ہونے، اس کی حوصلہ افزائی کرنے یا اس میں حصہ لینے سے گریز کرنا ہوگا، چاہے یہ عمل براہِ راست یا بالواسطہ ہو۔

وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ معاہدہ 27 جنوری 1991 سے نافذ ہوا اور 1992 سے دونوں ممالک ہر سال جوہری تنصیبات اور قیدیوں کی فہرستیں ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔

اس معاہدے کے مطابق اس سال بھی 1 جنوری کو انڈیا اور پاکستان نے جوہری تنصیبات اور قیدیوں، بشمول مچھیروں کی فہرستیں شئیر کی تھیں۔


فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کی روک تھام پر معاہدہ

یہ معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان 6 اپریل 1991 کو نئی دہلی میں طے پایا۔اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان فضائی حدود کی غلطی سے ہونے والی خلاف ورزیوں کو کم کرنا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے فوجی طیارے ایک دوسرے کی فضائی حدود سے 10 کلومیٹر دور رہیں۔ اس میں ایک خاص فضائی حدود بھی شامل ہے جسے ایئر ڈیفنس آئیڈنٹیفیکیشن زون کہتے ہیں، جہاں ہر ملک اپنے طیاروں سے شناخت طلب کرتا ہے تاکہ اپنے ملک کی حفاظت کی جا سکے۔

معاہدے میں یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ممالک کے کسی بھی طیارے کو دوسرے ملک کی فضائی حدود میں سمندری حدود کے اوپر بغیر اجازت کے داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

اس معاہدہ کی کبھی کبھار خلاف ورزیاں بھی ہوئیں۔ پہلگام حملے کے بعد انڈیا کی کارروائیوں کے جواب میں، پاکستان نے آج اعلان کیا کہ وہ فوراً انڈیا کی تمام ایئرلائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر رہا ہے۔


لاہور اعلامیہ

یہ اعلامیہ انڈین وزیرِ اعظم واجپائی اور پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف کے درمیان فروری 1999 میں طے پایا۔

اس معاہدے میں انڈیا اور پاکستان نے تسلیم کیا کہ امن اور سلامتی کا ماحول دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور تمام مسائل، جیسے جموں و کشمیر، کا حل ضروری ہے۔ دونوں نے یہ بھی اتفاق کیا کہ وہ اپنے بات چیت کے عمل کو تیز کریں گے تاکہ تمام مسائل کا حل نکال سکیں۔

دونوں ممالک نے جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک ہیں اور اس نئی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ جوہری اور روایتی مسائل پر اعتماد بڑھانے کے لیے باقاعدہ بات چیت کریں گے تاکہ کسی تنازعے سے بچا جا سکے۔

دونوں ممالک نے یہ طے کیا کہ وہ ایک دوسرے کو بیلسٹک میزائل کے ٹیسٹ سے پہلے آگاہ کریں گے اور اس پر ایک معاہدہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ عمل کارگل جنگ کی وجہ سے متاثر ہوا اور پھر 2004 میں دوبارہ شروع کیا گیا، جب دونوں ممالک نے روایتی اور جوہری مسائل پر بات کرنے کے لیے گروپ بنائے۔ لیکن سابق وزیرِ خارجہ اعزاز احمد چودھری نے کہا کہ اس معاہدے کی نگرانی کے لیے نہ پاکستان اور نہ انڈیا نے کوئی طریقہ کار بنایا۔


جوہری ہتھیاروں سے متعلق حادثات کے خطرات کو کم کرنے پر معاہدہ

اس معاہدے کا آغاز 21 فروری 2007 سے ہوا جو پانچ سال تک جاری رہا۔

اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت بہتر کرنے کا وعدہ کیا۔ اگر کوئی جوہری حادثہ ہو تو دونوں ایک دوسرے کو فوراً اطلاع دیں گے اور اس کے تابکاری اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ ہر ملک اس بات کا پابند ہے کہ اگر جوہری حادثہ پیش آتا ہے تو وہ اپنے اقدامات کو دوسرے ملک کے لیے غلط فہمی کا باعث بننے سے بچائے۔

2012 اور 2017 میں اس معاہدے کی مدت ہر بار پانچ سال کے لیے بڑھا دی گئی۔


ایل او سی سیز فائر معاہدہ

نومبر 2003 میں پاکستان اور انڈیا نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر فائر بندی کا معاہدہ کیا تھا۔ لائن آف کنٹرول ایک غیر رسمی سرحد ہے جو متنازعہ کشمیر وادی کو دونوں ممالک میں تقسیم کرتی ہے، جبکہ ورکنگ باؤنڈری دونوں ہمسایہ ممالک کو الگ کرتی ہے۔

یہ معاہدہ کچھ سالوں تک قائم رہا، مگر 2008 کے بعد سے اس کی خلاف ورزیاں معمول بن گئیں۔ 2014 کے بعد جب انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی اقتدار میں آئے، تو معاہدے کی خلاف ورزیوں میں مزید اضافہ ہوا۔

2021 میں دونوں ممالک نے اس معاہدے کی دوبارہ تصدیق کی۔ پاکستان کے بیان کے مطابق دونوں ممالک نے کسی بھی غیر متوقع صورتحال یا غلط فہمی کے لیے رابطے اور ملاقاتوں کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا۔













#انڈیا پاکستان کشیدگی
#شملہ معاہدہ
#ایشیا